Urdu-poetry-without-images-Wasi-shah-(2 lines)

Urdu-poetry-without-images-Wasi-shah-(2 lines)





فلک پے چاند کے حالے بھی سوگھ کرتے ہیں
‎جو تو نہیں تواُجالے بھی سوگھ کرتے ہیں








‎تم سے محبت کر کے ہم بہت پچھتا رہے ہیں
‎کاش سزائے محبت سے سزائے موت اچھا تھا











‎کب نہیں ناز اُٹھائے ہیں تمہارے میں نے
‎دیکھو آنچل پے سجاے ہیں ستارے میں نے










‎ہوتی ہوگی میرے بوسے کی طلب میں پاگل
‎جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہوگی









‎حجر کا تارا ڈوب چالا ہے ڈھلنے لگی ہے رات وصی
‎قطرہ قطرہ برس رہی ہے اشکوں کی برسات وصی










‎اداسیوں سے وابستہ ہے یہ زندگی میری وصی
‎خدا گواہ ہے کے پھر بھی تجھے یاد کرتے ہیں







‎کون کہتا ہے کے موت آے گی اور میں مر جاوّں گا
‎میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتّر جاوّں گا











‎دھیرے سے سرکتی ہے رات اُس کے آنچل کی طرح
‎اُس کا چہرا نظر اتا ہے جھیل پیں کنول کی طرح









‎یہ جو چہرے سے تمہیں لگتے ہیں بیمار سے ہم
‎خوب روئے ہیں لیپٹ کر در و دیوار سے ہم











‎کون روتا ہے یہاں رات کے سناٹے میں
‎میرے جیسا ہے کوئی عشق کا مارا ہوگا










‎آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
‎یادوں سے کوی رات کھالی نہیں جاتی











‎وہ بہت رکھتا چاہت کی نمازوں کا حساب
‎وہ تو ایک سجدہ نہ بخشے جو قضا ہو جاے












‎اس قدر پیار سے نہ بولا کر
‎دشمنی کا گمان ہوتا ہےنہ











‎کسی کی آنکھ سے سپنے چرا کر کچھ نہیں ملتا
‎منڈیروں سے چراغوں کو بجھا کر کچھ نہیں ملتا











‎ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
‎ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی











‎جب رات کی ناگین ڈستی ہے
‎نس نس میں زہر اُتارتا ہے









‎اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں
‎وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں









‎تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
‎اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے








‎آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
‎کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے







‎دکھ درد میں ہمیشہ نکالے تمہارے خط
‎اور مل گئی خوشی تو اچھالے تمہارے خط









‎کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
‎کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر










‎کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے
‎میرے قدموں پہ مرا سر ہے کئی صدیوں سے










‎سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
‎تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں











‎آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
‎پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم









‎ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
‎ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ









‎جمع تم ہو نہیں سکتے
‎ہمیں منفی سے نفرت ہے










‎خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
‎مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں










‎جتنی دعائیں آتی تھیں
‎سب مانگ لیں ہم نے






‎گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
‎رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی












‎اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
‎میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو











‎اس نے جب میری طرف پیار سے دیکھا ہوگا
‎میرے بارے میں بڑے گور سے سوچا ہوگا












‎گر سکوں چاہیے اس لمحۂ موجود میں بھی
‎آؤ اس لمحۂ موجود سے باہر نکلیں












‎نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
‎اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو











‎پہلے تجھے بنایا بنا کر مٹا دیا
‎جتنے بھی فیصلے کیے سارے غلط کیے









‎زندگی اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
‎گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا











‎ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
‎وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں










‎ہر ایک موسم میں روشنی سی بکھیرتے ہیں
‎تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں میں





‎مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
‎سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے








‎ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
‎کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں











‎جیسے ہو عمر بھر کا اثاثہ غریب کا
‎کچھ اس طرح سے میں نے سنبھالے تمہارے خط












‎کون کہتا ہے ملاقات مری آج کی ہے
‎تو مری روح کے اندر ہے کئی صدیوں سے










‎جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
‎تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں






‎اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
‎کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا








‎تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
‎کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں









‎ہم حسین ہونے کا دعویٰ تو نہیں کرتے وسی مگر
‎جسے آنکھ بھر کر دیکھ لیں اُلجھن میں ڈال دیتے ہیں









‎تم میری آنکھ کے تیور نہ بُھلا پاؤ گے
‎ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا









نہیں ھوتا کسی طبیب سے اس مرض کا علاج وصی
عـــشـــق لا عــلاج ھـــــے ، بس پــــرہــیــز کیجیے





Post a Comment

0 Comments