جو تو نہیں تواُجالے بھی سوگھ کرتے ہیں
تم سے محبت کر کے ہم بہت پچھتا رہے ہیں
کاش سزائے محبت سے سزائے موت اچھا تھا
کب نہیں ناز اُٹھائے ہیں تمہارے میں نے
دیکھو آنچل پے سجاے ہیں ستارے میں نے
ہوتی ہوگی میرے بوسے کی طلب میں پاگل
جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہوگی
حجر کا تارا ڈوب چالا ہے ڈھلنے لگی ہے رات وصی
قطرہ قطرہ برس رہی ہے اشکوں کی برسات وصی
اداسیوں سے وابستہ ہے یہ زندگی میری وصی
خدا گواہ ہے کے پھر بھی تجھے یاد کرتے ہیں
کون کہتا ہے کے موت آے گی اور میں مر جاوّں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتّر جاوّں گا
دھیرے سے سرکتی ہے رات اُس کے آنچل کی طرح
اُس کا چہرا نظر اتا ہے جھیل پیں کنول کی طرح
یہ جو چہرے سے تمہیں لگتے ہیں بیمار سے ہم
خوب روئے ہیں لیپٹ کر در و دیوار سے ہم
کون روتا ہے یہاں رات کے سناٹے میں
میرے جیسا ہے کوئی عشق کا مارا ہوگا
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوی رات کھالی نہیں جاتی
وہ بہت رکھتا چاہت کی نمازوں کا حساب
وہ تو ایک سجدہ نہ بخشے جو قضا ہو جاے
اس قدر پیار سے نہ بولا کر
دشمنی کا گمان ہوتا ہےنہ
کسی کی آنکھ سے سپنے چرا کر کچھ نہیں ملتا
منڈیروں سے چراغوں کو بجھا کر کچھ نہیں ملتا
ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی
جب رات کی ناگین ڈستی ہے
نس نس میں زہر اُتارتا ہے
اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں
وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے
دکھ درد میں ہمیشہ نکالے تمہارے خط
اور مل گئی خوشی تو اچھالے تمہارے خط
کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر
کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے
میرے قدموں پہ مرا سر ہے کئی صدیوں سے
سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم
ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ
جمع تم ہو نہیں سکتے
ہمیں منفی سے نفرت ہے
خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
جتنی دعائیں آتی تھیں
سب مانگ لیں ہم نے
گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو
اس نے جب میری طرف پیار سے دیکھا ہوگا
میرے بارے میں بڑے گور سے سوچا ہوگا
گر سکوں چاہیے اس لمحۂ موجود میں بھی
آؤ اس لمحۂ موجود سے باہر نکلیں
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو
پہلے تجھے بنایا بنا کر مٹا دیا
جتنے بھی فیصلے کیے سارے غلط کیے
زندگی اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں
ہر ایک موسم میں روشنی سی بکھیرتے ہیں
تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں میں
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
جیسے ہو عمر بھر کا اثاثہ غریب کا
کچھ اس طرح سے میں نے سنبھالے تمہارے خط
کون کہتا ہے ملاقات مری آج کی ہے
تو مری روح کے اندر ہے کئی صدیوں سے
جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہم حسین ہونے کا دعویٰ تو نہیں کرتے وسی مگر
جسے آنکھ بھر کر دیکھ لیں اُلجھن میں ڈال دیتے ہیں
تم میری آنکھ کے تیور نہ بُھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا
نہیں ھوتا کسی طبیب سے اس مرض کا علاج وصی
عـــشـــق لا عــلاج ھـــــے ، بس پــــرہــیــز کیجیے
0 Comments