چاندنی رات کے ہاتھوں پر سواری اتری ہے
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے
اس میں کچھ رنگ بھی ہیں خواب بھی مہکار بھی ہے
جھلملاتی ہوئی خواہش بھی ہے انکار بھی ہے
اسی خوشبو میں کئی درد بھی، افسانے بھی
اسی خوشبو نے بنائے کوئی دیوانے بھی
میرے آنچل پہ امیدوں کی قطار اتری ہے
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے
ای خوشبو سے کسی یاد کے در کھلتے ہیں
میرے پیروں سے جو لیٹے تو سفر کھلتے ہیں
ہی خوشبو جو مجھے گھر سے اٹھا لائی تھی
اب کسی طور پلٹ کر نہیں جانے دیتی
میری دہلیز بلاتی ہے مجھے لوٹ آو
ہی خوشبو مجھے واپس نہیں آنے دیتی
رنج اور درد میں ڈوبی یہ بہار اتری ہے
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے
میں خوش نصبیی ہوں تیری مجھے بھی راس ہے تو
ترا لباس ہوں میں اور مرا لباس ہے تو
عجیب شے ہے محبت بھی، دور ہیں لیکن
ترے قریب ہوں میں، میرے آس پاس ہے تو
کیا ہے خود کو فراموش میں نے تیرے لیے
بہت ہی عام ہے دنیا، بہت ہی خاص ہے تو
زمانہ ہم کو جدا کر سکے، نہیں ممکن
محبتوں میں جو ناخن ہوں میں توماس ہے تو
یہ ریت کی مرے ہونٹوں پر جم گئی کیسی
مجھے گماں تھا کہ دریا ہوں میں تو پیاس ہے تو
یہ کون تیرے مرے درمیان ہے جاناں
کہ میں بھی درد میں ہوں اور محو یاس ہے تو
کتنی دلفیں کھلیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
کتنا ماتم بوا کتے آنسو ہے چاند کو کیا خبر
مدتوں اس کی خواہش میں چلتے رہے ہاتھ آتا نہیں
چاہ میں اس کی پیروں میں ہیں آبلے چاند کو کیا خبر
وہ جو نکالا نہیں تو بھنکتے رہے ہیں مسافر کئی
اور لاتے رہے ہیں کئی قافلے چاند کو کیا خبر
وہ تو اپنی ہی انٹری میں مدہوش ہے کب سے خاموش ہے
کون راجہ بنا کتنے سید لئے ، چاند کو کیا خبر
اس کو کوئی بہت میٹھے پن کا وی چاندنی سے کہو
اس کی کرنوں سے کتنے ہی گھر جل گئے چاند کو کیا خبر
روشنی اور بہاریں نہیں رکھ لو جاناں
میرے جگنو مرے موسم مجھے واپس کر دو
میری حسرت مری محرومیاں لوٹا دو مجھے
میرے آنسو مرے ماتم مجھے واپس کر دو
جانے والے سے بس اتنا ہی کہا تھا میں نے
کچھ نہ لوٹاؤ میرے غم مجھے واپس کر دو
کیوں یہ تکرار سی ہونے گی ”میں‘‘ کی جاناں
وہ جو ہم تم میں تھا، اک ’’ہم‘‘ مجھے واپس کر دو
جتنی خوشیاں ہیں وہ رکھ لو مری جانب سے وصی
میری آنکھوں میں پیچھے نہ مجھے واپس کر دو
پاگل لڑکی پہلے میرے خط کے
اس نے اک انجانے خوف سے ڈر کر
ککڑے ٹکڑے کر ڈالے
اب
ایک میں احساس کے تابع
جس کا کوئی نام نہیں ہے
پچھلے کتنے ہی گھنٹوں سے
دروازے کی اوٹ میں چھپ کر
ٹکڑے جوڑ رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔پاگل
طنز کرتے ہیں جو لوگ ان کو دکھانے کے لیے
لوٹ آو نا مرے یار زمانے کے لیے
اس لیے بھی تری تصور جلا دی میں نے
اور کچھ تھا ہی نہیں دل کو جلانے کے لیے
تیرے باعث ہی تو سکتنے کا ہے عالم طاری
خود کو ناراض کیا تجھ کو منانے کے لیے
آج پھر شام گزاری ہے اسی جنگل میں
آن درختوں سے ترا نام مٹانے کے لیے
بھیگی آنکھوں والی لڑکی
میری طرف جب دیکھتی ہے تو
من میں جل تھل کر جاتی ہے
مجھ کو پاگل کر جاتی ہے…...
سمندر کب کا پیچھے جا چکا ہے
بس اب ساحل پر آتی ہے نظر
یادوں کی کائی
درد کی ریت
اور مردہ سیپیاں
سمندر آرزوؤں ، خواہشوں کا جالتے خوابوں کا
تری چاہت کا بے پایاں سمندر
تو جانے کب کا پیچھے جا چکا ہے
بارہا ایسے لگا
جیسے ترا ہاتھ
میرے بالوں کو چھوا ہو
تو نے کچھ مجھ سے کہا ہو لیکن
رات بھر روٹھار ہا
تونے منایا ہی نہیں ...........!
جتنے جلے رنگ جہاں میں بستے ہیں سب
تم پر اچھے لگتے ہیں
جو پہنو جو اوڑھو
تم پر سجتا ہے
جانتی ہوتم
رنگ بہت بے چین رہا کرتے ہیں
کب تک
اوڑھ کے ان کو
نرم ہوا کے ایوانوں کی
سیر کروگی
چھو کر جاناں
إن رنگوں کو جیون دوگی
اپنے حسن کا ساون دو گی
موبائل کی نہیں بجتی ہے
اور تم جاناں...........!
گھرے اس کونے میں جس میں
سب سے بڑھ کر
سب سے واضح signals فون پر آتے ہیں
اس کونے میں کھڑے ہوئے بھی
کیوں کہتے ہو
صاف نہیں ہے کچھ آواز
پھر باہر یا چھت پر جا کر
گھنٹوں گھنٹوں
کس سے باتیں کرتے ہو تم
کون ہے
وہ..................؟؟؟
آج وہ مدت بعد آئی بھی
بس یہ کہنے
جاناں!
مرے سارے خط لوٹا دو
سب تصویر میں قلم کتابیں
واپس کر دو سارے تحفے
مجھ سے سب کچھ مانگنے والی
جاتے جاتے
میرے کمرے کی چوکھٹ پر
چھوڑ گئی ہے
اپنا آپ
رات کا پچھلا پہر ہے
ماتی ملبوس اوڑھے
در دکی آن وادیوں سے
وحشتوں کے راستے سے
لڑکھڑاتی
ڈگمگاتی
بال کھولے
بین کرتی
چاندنی کو ساتھ لے کر
میری جانب چل پڑی ہے
آرہی
ہے
تیری یاد ...............
مرے نصیب میں پھر یہ بہار ہو کہ نہ ہو
نہ جانے پر وہ مرا غمگسار ہو کہ نہ ہو
یہی بہت ہے کہ ایک شخص چین پا جائے
بھلے درخت بہت سایہ دار ہو کہ نہ ہو
اسی گماں نے کبھی لوٹنے دیا نہ مجھے
نہ جانے اس کو مرا انتظار ہو کہ نہ ہو
مگر یہ طے ہے کہ میں اس کے غم میں رہتا ہوں
مرے لیے وہ بھلے بیقرار ہو کہ نہ ہو
میں دھوپ بن نہیں سکتا میں کسی کے لیے
مرے لیے کوئی ابر بہار ہو کہ نہ ہو
جب تیری یاد میں مصریہ کوئی لکھنے بیٹھا
میں نے کاغذ پر بھی چھالوں کا گلستاں دیکھا
تو نے دیکھا ہے منڈیروں پر چراغوں کو فقط
میں نے جتنا ہوا ہر دور میں انساں دیکھا
کیسے پہناؤں تیرے ہاتھ میں کنگن جاناں
درد اتنا ہے کہ تم جاتی ہے دھڑکن جاناں
آگ برساتا ہوا آتا ہے ساون جاناں
کیسے پہناؤں تیرے ہاتھ میں سنگین جاناں
بھوک اور پیاس سے گر لاتے ہوئے لوگوں کو
دکھ پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ان حلقوں کو
دیکھے فرقوں میں نے جاتے ہیں میرے بازو
روز گلیوں میں کئے جاتے ہیں میرے بازو
نت نئے ظلم کو سوتے ہوئے اور جیتے ہوئے
دیکھ میری نئی نسلوں کو دھواں پیتے ہوئے
میری گلیوں میں بھٹکتے ہوئے مفلس بچے
میرے کھیتوں میں اترتے ہوئے شجر موسم
مجھے مزدور کی جرت کے لئے کرتا ہے
میں نہیں کہتا کہتے ہیں تیرے سب جذبے
ہاں مگر ان کو کسی اور کی آنکھوں میں سجا
دکھ کیوں ضد تو نہ کر میری رفاقت کے لیے
یہ تیرا حسن نہیں کچھ بھی، محبت کے لیے
چھوڑ دامن مجھے جانے دے مجھے تنگ نہ کر
میں کسی طور برا ہو ہی نہیں سکتا ہوں
نسل آدم کے مقدر میں فقط گولی ہے
تو بھی سنتی ہے ماں، بندوق نہیں بولی ہے
میرے لوگوں پر مسلط ہوئی جاتی ہے یہ جنگ
دیکھیے یہ پھول سے چہرے ہوئے کیسے بے رنگ
دیکھے قدهاره به بغداد، فلسطین، کشمیر
پانے کیا خواب تھے، لاشیں ہوئیں جن کی تعبیر
دیکھیے یہ کس نے پکارا یہ تڑپ کس کی ہے
دیکھیے وہ ایک ہی بیٹا تھا جسے مارا ہے
اوکھے وہ تازہ دھماکے میں جاتے ہوئے لوگ
کی وہ نیم برہنہ کسی معذور کی لاش
ایک احساس کے آنچل کو ترستے ہوئے لوگ
دیکھے وہ جیب کترا ہوا کمسن بچے
دکھ بھری ہے پھر آواز کہیں ماتم کی
میری تہذیب کے بکھرے ہوئے نعروں کا جلوس
میرے ملنے میں رکاوٹ مرے خوابوں کا جلوس
رات دن سوگ کے عالم میں ہے تن من جاناں
اب تو بے معنی ہیں رشتے بھی بندھن جاناں
کیسے پہناؤں تیرے ہاتھ میں کنگن جاناں
مان لے آب بھی مری جان ادا، درد نہ چن
کام آتی ہیں پھر کوئی دعا، درد نہ چن
اور کچھ دیر میں مجھ کو چلے جانا ہوگا
اور کچھ دیر مجھے خواب وکھا، درد نہ چن
ایک بھی درد نہ کم ہوگا کئی صدیوں میں
اب بھی کہتا ہوں مجھے وقت بچا، درد نہ چن
وہ جو لکھا ہے کسی طور نہیں مل سکتا
آ مرے دل میں کوئی دیپ جلا ، درد نه چن
میں ترے لمس سے محروم نہ رہ جاؤں کہیں
آخری بار مجھے خود سے لگا، درد نه چن
آب تو یہ ریشمی پور میں بھی چھدی جاتی ہیں
خود کو اب بخش بھی دے ،ظلم نہ ڈھا، درد نہ چن
یہ نہیں ہوں گے تو خالی نہیں ہو جاؤں گا میں
میرے زخموں سے کوئی گیت بنا، درد نه چن
کچھ نہ دے گا یہ مسائل سے الجھتے رہنا
چھوڑ سب کچھ میری بانہوں میں سا، درد نہ چن
تم وہاں ہو، یہاں نہیں ہو تم
غم ہی غم ہیں جہاں نہیں ہو تم
آب کسی اور سمت دیکھتا ہوں
آب مرا آساں نہیں ہو تم
عشق زندہ رہے گا میرے بعد
ہاں مگر جاوداں نہیں ہو تم
تم گردی دھوپ کا سفر نہ سہی
ہاں مگر سائباں نہیں ہو تم
میری یادیں تمہارے سر پر ہیں
جان من! بے اماں نہیں ہو تم
کس لیے آپ آپ کرتے ہو
مجھ سے گر بدگماں نہیں ہو تم
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا
آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی
اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی
مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی
آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی
معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے
پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی
ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی
ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو
کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
ہے تمہارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو
تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو
اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کر دو
اس کے سائے میں مرے خواب دہک اٹھیں گے
میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو
دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر
اس قدر برسو مری روح میں جل تھل کر دو
جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے جل تھل کر دو
تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کر دو
اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو
گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
آکسی خوف میں اُتریں کسی غم کو اوڑھیں
کسی اُجڑے ہوئے لمحے میں سجائیں خود کو
تھام کر ریشمی ہاتھوں میں ہوا کی چادر
رُوح میں گھول لیں تاروں کا حسیں تاج محل
جی میں آتا ہے لپٹ جائیں کسی چاند کے ساتھ
بے یقینی کے سمندر کا کنارہ لے کر
ہم نکل جائیں کسی خدشے کی انگلی تھامے
تیری یادوں کے تلے درد کے سائے سائے
گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
جتنی دعائیں آتی تھیں
سب مانگ لیں ہم نے
جتنے وظیفے یاد تھے سارے
کر بیٹھے ہیں
کئی طرح سے جی کر دیکھا ہے
کئی طرح سے مر بیٹھے ہیں
لیکن جاناں
کسی بھی صورت
تم میرے ہو کر نہیں دیتے
ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺟﺴﮯ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺭﯾﺎ ﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺍﺩﺍﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﺎ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﭘﮩﻨﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ
ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﭼﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺩﮐﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻟﯿﮑﻦ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﭽﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں
جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہوں
کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر
میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں
اس لیے تم آؤ ملنے میں تو آ سکتی نہیں
ہر روایت توڑ کر اس بار میں نے کہہ دیا
تم جو ہو مصروف میں بھی بہت مصروف ہوں
تم جو ہو مشہور تو میں بھی بہت معروف ہوں
تم اگر غمگین ہو میں بھی بہت رنجور ہوں
تم تھکن سے چور تو میں بھی تھکن سے چور ہوں
جان من ہے وقت میرا بھی بہت ہی قیمتی
کچھ پُرانے دوستوں نے ملنے آنا ہے ابھی
میں بھی اب فارغ نہیں مجھ کو بھی لاکھوں کام ہیں
ورنہ کہنے کو تو سب لمحے تمھارے نام ہیں
میری آنکھیں بھی بہت بوجھل ہیں سونا ہے مجھے
رتجگوں کے بعد اب نیندوں میں کھونا ہے مجھے
میں لہو اپنی اناؤں کا بہا سکتا نہیں
تم نہیں آتی تو ملنے میں بھی آ سکتا نہیں
اس کو یہ کہہ کر وصی میں نے ریسیور رکھ دیا
اور پھر اپنی انا کے پاؤں پے سر رکھ دیا
جمع تم ہو نہیں سکتے
ہمیں منفی سے نفرت ہے
تمہیں تقسیم کرتے ہیں
تو حاصل کچھ نہیں آتا
کوئی قائدہ کوئی کُلیہ
نہ لاگُو تجھ پے ہو پائے
ضرب تجھ کو اگر دوِ تو
حسابوں میں خلل آئے
اکائی کو دھائی پر
میں نسبت دوں تو کیسے دوں
نہ الجبرا سے لگتے ہو
نہ ہو ڈگری نکل آئے
عُمر یہ کٹ گئی میری
تجھے ہمدم سمجھنے میں
جو حل تیرا اگر نکلے
تو سب کچھ ہی اُلجھ جائے
صفر تھی ابتداء میری صفر ہی اب تلک تم ہو
صفر ضربِ صفر ہو تم نہ جس سے کچھ فرق آئے
آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم
ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب
راستے کھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
چاند کی کرنوں نے ہم کو اس طرح بوسہ دیا
دیوتا ہونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
آج پھر محرومیوں کی داستانیں اوڑھ کر
خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم
کھو گئے انداز بھی ، آواز بھی، الفاظ بھی
خامشی ڈھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
سوچتا ہوں كے اسے نیند بھی آتی ہوگی
یا میری طرح فقط اشک بہاتی ہوگی
وہ میری شکل میرا نام بھلانے والی
اپنی تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہوگی
اِس زمین پہ بھی ہے سیلاب میرے اشکوں سے
میرے ماتم کی سدا عرش حیلااتی ہوگی
شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پہ جلا کر شامیں
اپنی پلکوں پہ کئی خواب سلاتی ہوگی
اس نے سلوا بھی لیے ہونگے سیاہ رنگ كے لباس
اب محرم کی طرح عید مناتی ہوگی
ہوتی ہوگی میرے بوسے کی طلب میں پاگل
جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہوگی
میرے تاریک زمانوں سے نکلنے والی
روشنی تجھ کو میری یاد دلاتی ہوگی
دِل کی معصوم رگیں خود ہی سلگتی ہونگی
جون ہی تصویر کا کونا وہ جلاتی ہوگی
روپ دے کر مجھے اِس میں کسی شہزاادی کا
اپنے بچوں کو کہانی وہ سناتی ہوگی
کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے
میرے قدموں پہ مرا سر ہے کئی صدیوں سے
خوف رہتا ہے نہ سیلاب کہیں لے جائے
میری پلکوں پہ ترا گھر ہے کئی صدیوں سے
اشک آنکھوں میں سلگتے ہوئے سو جاتے ہیں
یہ میری آنکھ جو بنجر ہے کئی صدیوں سے
کون کہتا ہے ملاقات مری آج کی ہے
تو مری روح کے اندر ہے کئی صدیوں سے
میں نے جس کے لیے ہر شخص کو ناراض کیا
روٹھ جائے نہ یہی ڈر ہے کئی صدیوں سے
اس کو عادت ہے جڑیں کاٹتے رہنے کی وصیؔ
جو مری ذات کا محور ہے کئی صدیوں سے
سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ترے کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
دکھ درد میں ہمیشہ نکالے تمہارے خط
اور مل گئی خوشی تو اچھالے تمہارے خط
سب چوڑیاں تمہاری سمندر کو سونپ دیں
اور کر دیے ہوا کے حوالے تمہارے خط
میرے لہو میں گونج رہا ہے ہر ایک لفظ
میں نے رگوں کے دشت میں پالے تمہارے خط
یوں تو ہیں بے شمار وفا کی نشانیاں
لیکن ہر ایک شے سے نرالے تمہارے خط
جیسے ہو عمر بھر کا اثاثہ غریب کا
کچھ اس طرح سے میں نے سنبھالے تمہارے خط
اہل ہنر کو مجھ پہ وصیؔ اعتراض ہے
میں نے جو اپنے شعر میں ڈھالے تمہارے خط
پروا مجھے نہیں ہے کسی چاند کی وصیؔ
ظلمت کے دشت میں ہیں اجالے تمہارے خط
کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر
مدتوں اس کی خواہش سے چلتے رہے ہاتھ آتا نہیں
چاہ میں اس کی پیروں میں ہیں آبلے چاند کو کیا خبر
وہ جو نکلا نہیں تو بھٹکتے رہے ہیں مسافر کئی
اور لٹتے رہے ہیں کئی قافلے چاند کو کیا خبر
اس کو دعویٰ بہت میٹھے پن کا وصیؔ چاندنی سے کہو
اس کی کرنوں سے کتنے ہی گھر جل گئے چاند کو کیا خبر
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں
جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہوں
اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں
وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں
مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی
جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں
وہ بچپنا جو اداس راہوں میں کھو گیا تھا
میں ڈھونڈتا ہوں اسے تمہاری شرارتوں میں
اسے دلاسے تو دے رہا ہوں مگر یہ سچ ہے
کہیں کوئی خوف بڑھ رہا ہے تسلیوں میں
تم اپنی پوروں سے جانے کیا لکھ گئے تھے جاناں
چراغ روشن ہیں اب بھی میری ہتھیلیوں میں
جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں
مجھے یقیں ہے وہ تھام لے گا بھرم رکھے گا
یہ مان ہے تو دیے جلائے ہیں آندھیوں میں
ہر ایک موسم میں روشنی سی بکھیرتے ہیں
تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں میں
Suno!
Wo Kehta Hy K Tm Badal Gaye Ho,
Suno!
Wo Ye Ni Manta K M Ni Tm Badl Gaye Ho,
Manty Han Hm K Hmy Milti Han Fursaten Bht Dair Sy,
Mgr Jb Bat Krty Han To Kehta Hy Tm Badal Gaye,
Suno!
Hm Ny Lgai Thi Ik Bazi Khel-E-Ishq Ki,
Hm Har Ky Bi Jeet Gaye Wo Kehta Hy Tm Har Gaye Ho,
Suno!
Wo Aksar Krta Hy Baten Berukhi Ki,
Hm Ny Jb Ki Bt Wafa Ki Wo Kehta Hy Tm Bewafa Ho Gaye Ho,
Suno!
M Aksar Sochti Hun Paari Koi To Batla Dy Mjy,
M Badal Gai Hun Ya Per
TUM BADAL GAYE HO?
Mere Naseeb Me Phir Ye Bahar Ho K Na Ho
Najane Phir Wo Mera Ghumgusar Ho K Na Ho
Tum Se Mohabbat Kar K Hum Bohot Pachta Rahe Hain
Kash Sazaa-E-Mohabbat Se Sazaa-E-Maut Achha Tha
Kab Nahin Naaz Uthaye Hain Tumhare Mene
Dekho Aanchal Pe Sajaye Hain Sitare Mene
H0ti H0 Gi Mere B00Sey Ki Talab Mai Paagal
Jab Bhi Zulf0'n Mai K0i Ph00L Sajaati H0 Gi
Hijar Ka Taara Doob Chala Hai Dhalne Lagi Hai Raat Wasi
Qatra Qatra Baras Rahi Hai Ashkon Ki Barsaat Wasi
Ye Jo Chehre Se Tumhen Lagte Hain Beemar Se Hum
Khob Roye Hain Lipat Kar Dar-O-Deewar Se Hum
Aaj Yun Mausam Ne Dee Jashn-E-Muhabbat Ki Khabar
Phoot Ker Rone Lage Hain Mai Muhabbat Aur Tum
Fuluk Pay Chand Kay Haaly Bhe Sogh Kurty Hen
Jo Tou Nahi Tu Ojaaly Bhe Sogh Kurty Hen
Kon Kehta Hai K Maot Aaigi Aur Main Mar Jaoonga
Main To Darya Hoon Samandar Main Uttr Jaoonga
Kaun Rota Hai Yahan Raat Ke Sannate Mein
Mere Jaisa Hai Koi Ishq Ka Mara Hoga
Udasiyon Se Wabasta Hai Yeh Zindagi Meri WASI
Khuda Gawaah Hai K Phir Bhi Tujhe Yaad Karte Hain
Is Qadar Payar Sy Na Bola Kar
Dushmani Ka Guman Hota Hai
Jad Rat Nu Sare Sondy Ne
Do Nain Nimany Rondy
Ne
Koi Mildi Raah Naen
Niklan Nu
Ghum Chaar Chafairy
Hondy Ne
Menu Samajh K Pagal
Vekhanlei
Kei Loki Aan Khalondy Ne
Jerrhy Pyar Kise Naal
Karde Ne
O Hanjuaan Da Haar
Parondy Ne
Jad Muk Jaan Athroo
Akhiyan Vicho
Fair Katray Khoon De
Aundy Ne
Jery Tor Nibhan Da Kendy
San
Aj Vekh K Boohy Tondy
Ne
"Pyar"Sajna Jina Da
Khalis Hove
O Kadi Ni Kisy Hor De
Honde Ne
(Wasi Shah)
Wo Bohat Rakhta Hai Chahat Ki Namazon Ka Hisab
Wo To Ik Sajda Na Bakhshy Jo Qaza Hu Jai
Kash Main Tere Haseen Haath Ka Kangan Hota
Tu Bare Piyar Say Chaao Sey Bare Maan Ke Sath
Dheeray Se Sarakti Hai Raat Us Ke Aanchal Ki Tarah
Uska Chehra Nazar Aata Hai Jheel Main Kanwal Ki Tarah
Baad Muddat Usko Daikha To Jism-o-Jaan Ko Yun Laga
Pyasi Zameen Pe Jaisay Koi Baras Gaya Baadal Ki Tarah
Roz Kehta Hai Seenay Pe Sar Rakh K Raat Bhar Jaga’uon Ga,
Sar-e-Sham Hee Mujhe Aaj Phir Sula Gaya Wo Kal Ki Tarah,
Mere Hee Dil Ka Makeen Nikla Wo Shakhs “Wasi”
Aur Mein Shehar Bhar Me Dhundta Raha Usy Kisi Pagal Ki Tarah
Mere Naseeb Me Phir Ye Bahar Ho K Na Ho
Najane Phir Wo Mera Ghumgusar Ho K Na Ho
Kisi Ki Aankh Se Sapne Chura Kar Kuch Nahi Milta
Munderon Se Chiraghon Ko Bojha Kar Kuch Nahi Milta
Udasiyon Se Wabasta Hai Yeh Zindagi Meri WASI
Khuda Gawaah Hai K Phir Bhi Tujhe Yaad Karte Hain
Jab Raat Ki Nagin Dasti Hai
Nus Nus Mein Zehar Utarta Hai
0 Comments