Urdu-poetry-without-images-Mirza-ghalib-(2 lines)


Urdu-poetry-without-images-Mirza-ghalib-(2 lines)




‎ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا 
‎نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا





‎رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج 
‎مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں 







‎نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن 
‎بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکل










‎قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ 
‎ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے 





‎تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد 
‎تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا 






‎ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے 
‎میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے 







‎خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ 
‎کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے 





‎پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے 
‎پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے 






‎وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے 
‎کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں 






‎دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ 
‎اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں  





‎عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا 
‎جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا






‎عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام 
‎مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے 






‎مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے 
‎تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے 






‎کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جاے دل 
‎انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں 







‎دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں 
‎خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں







‎بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک 
‎ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا 







‎مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی 
‎زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے






‎غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے 
‎یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے 







‎بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے 
‎غلام ساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے 







‎خیمۂ لیلےٰ سیاہ و خانۂ مجنوں خراب 
‎جوش ویرانی ہے عشق داغ بیروں دادہ سے  







‎دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو 
‎جوش نیرنگ بہار عرض صحرا دادہ سے 





‎دیکھتا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے 
‎فال رسوائی سرشک سر بہ صحرا دادہ سے 







‎بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا 
‎شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج بادہ سے







‎آمد سیلاب طوفان صداۓ آب ہے 
‎نقش پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے





‎لغزشت مستانہ و جوش تماشا ہے اسدؔ 
‎آتش مے سے بہار گرمیٔ بازار دوست 






‎ہے سوا نیزے پہ اس کے قامت نوخیز سے 
‎آفتاب صبح محشر ہے گل دستار دوست 






‎برق خرمن زار گوہر ہے نگاہ تیز یاں 
‎اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیٔ رفتار دوست 






‎چشم بند خلق جز تمثال خود بینی نہیں 
‎آئینہ ہے قالب خشت در و دیوار دوست






‎یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ 
‎ہے ردیف شعر میں غالبؔ ز بس تکرار دوست 






‎چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر 
‎ہنس کے کرتا ہے بیان شوخی گفتار دوست 






‎جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعف دماغ 
‎سر کرے ہے وہ حدیث زلف عنبر بار دوست 







‎تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک 
‎مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۂ دیدار دوست 







‎تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک 
‎مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۂ دیدار دوست  







‎چشم ما روشن کہ اس بے درد کا دل شاد ہے 
‎دیدۂ پرخوں ہمارا ساغر سرشار دوست 







‎عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے 
‎کشتۂ دشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست 







‎خانہ ویراں سازی حیرت تماشا کیجیے 
‎صورت نقش قدم ہوں رفتۂ رفتار دوست 







‎اے دل ناعاقبت اندیش ضبط شوق کر 
‎کون لا سکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست







‎آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست 
‎دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست







‎یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو 
‎یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے






‎غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے 
‎ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے 
'







‎درکار ہے شگفتن گل ہائے عیش کو 
‎صبح بہار پنبۂ مینا کہیں جسے 








‎ہے چشم تر میں حسرت دیدار سے نہاں 
‎شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے







‎سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالیے 
‎وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے






‎پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا 
‎افسون انتظار تمنا کہیں جسے 





‎حسرت نے لا رکھا تری بزم خیال میں 
‎گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے







‎آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے 
‎ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے







‎جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر 
‎جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا 







‎شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر 
‎پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا 








‎ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار 
‎پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا 







‎درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے 
‎وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا







‎اے وائے غفلت نگۂ شوق ورنہ یاں 
‎ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا 








‎ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا 
‎اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا








‎قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے 
‎اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا









‎آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے 
‎صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا






‎غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج 
‎شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک










‎یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل 
‎گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک









‎پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم 
‎میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک









‎ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن 
‎خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک






‎عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب 
‎دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک








‎دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ 
‎دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک







‎ہو فشار ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود 
‎قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں








‎لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری 
‎موج مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں









‎قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا 
‎خوں بھی ذوق درد سے فارغ مرے تن میں نہیں






‎بسکہ ہیں ہم اک بہار ناز کے مارے ہوئے 
‎جلوۂ گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں 





‎زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن 
‎غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں 






Post a Comment

0 Comments