ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکل
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے
پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جاے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا
مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
غلام ساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے
خیمۂ لیلےٰ سیاہ و خانۂ مجنوں خراب
جوش ویرانی ہے عشق داغ بیروں دادہ سے
دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو
جوش نیرنگ بہار عرض صحرا دادہ سے
دیکھتا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے
فال رسوائی سرشک سر بہ صحرا دادہ سے
بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا
شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج بادہ سے
آمد سیلاب طوفان صداۓ آب ہے
نقش پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
لغزشت مستانہ و جوش تماشا ہے اسدؔ
آتش مے سے بہار گرمیٔ بازار دوست
ہے سوا نیزے پہ اس کے قامت نوخیز سے
آفتاب صبح محشر ہے گل دستار دوست
برق خرمن زار گوہر ہے نگاہ تیز یاں
اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیٔ رفتار دوست
چشم بند خلق جز تمثال خود بینی نہیں
آئینہ ہے قالب خشت در و دیوار دوست
یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ
ہے ردیف شعر میں غالبؔ ز بس تکرار دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیان شوخی گفتار دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعف دماغ
سر کرے ہے وہ حدیث زلف عنبر بار دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۂ دیدار دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۂ دیدار دوست
چشم ما روشن کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پرخوں ہمارا ساغر سرشار دوست
عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے
کشتۂ دشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست
خانہ ویراں سازی حیرت تماشا کیجیے
صورت نقش قدم ہوں رفتۂ رفتار دوست
اے دل ناعاقبت اندیش ضبط شوق کر
کون لا سکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست
یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے
غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
'
درکار ہے شگفتن گل ہائے عیش کو
صبح بہار پنبۂ مینا کہیں جسے
ہے چشم تر میں حسرت دیدار سے نہاں
شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے
سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالیے
وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسون انتظار تمنا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر
جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا
شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر
پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا
ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا
درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے
وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا
اے وائے غفلت نگۂ شوق ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا
ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
ہو فشار ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موج مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خوں بھی ذوق درد سے فارغ مرے تن میں نہیں
بسکہ ہیں ہم اک بہار ناز کے مارے ہوئے
جلوۂ گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں
0 Comments