Urdu-poetry-without-images-Mirza-ghalib-ghazals
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموشی کے مانند گویا جل گیا
دل میں ذوق وصل و یا دیار تک باقی نہیں
اگر اس گھر میں کئی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں ، رد نه غافل بار ہا!
میری آو آتشیں سے بالي عنقا جل گیا
عوض کے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟
پھر خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
دل نہیں ، تجھ کو دکھا تا ورنہ دانتوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا ، کارفرما جل گیا
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب ! کہ دل
دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا
وهو وه
شوق ، ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عیاں نکلا
زنم نے داد نہ دی تشنگی دل کی یا رب
تیر بھی سیانے عمل سے پر افشاں نکلا
بوئے گل ، نالۂ: دل ، دود چراغ محفل
جو تری بزم نکلا سو پریشاں نکلا
دل حسرت زدہ تھا مانده لذت درد
کا م یا روں کا بہ قدر لب و دندان نکلا
اے نو آموز فنا ہمت دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
دل میں بھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
آه جو قطره نہ نکلا، سو طوفاں نکلا
دھمکی میں مر گیا جو ، نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طاہگار مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پر بھی مرا رنگ زرد تھا
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعی خیال بھی فرد فرد تھا
دل تا جگر کہ ساحل دریا ئے خوں ہے اب
اس ر ہگزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
جاتی ہے کوئی کشمکش اندو و عشق کی؟
دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
احباب چاره ساز وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزار مرد تھا
شما به مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بی یک کف برون صد دل ، پسند آیا
به فیض بید لی نومیدی جاوید آسان ہے
کشائیش کو ہمارا عقده مشکل ، پسند آیا
ہوائے سیر گل آئینہ بے مہري قاتل
کہ انداز بہ خوں غلتیدن کل پسند آیا
ستایش گر ہے زاہد اس قدر رجس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم مینودوں کے طاق نسیاں کا
بیان کیا ہے بیداد کاوش ہاے مژگاں کا
کہ ہر اک قطرۂ خوں دانہ ہے بیج مرباں کا
نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے بالوں کا
نیا دانتوں میں جو تکا ، ہوا ر یہ نیناں کا
دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تم بے سر و چراغاں کا
کیا " مینہنانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید ، عالم من مستاں کا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیوی برق خرمن کا ہے خون گرم و متقاب کا
گاہے گھر میں ہر سو سبزه، ویرانی تماشا کر!
مداراب شنود نے پر گھاس کے ہے میرے اور بال کا
خموشی میں نہاں خوں گشت لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ مردہ ہیں میں نے زباں ، گورنر یہاں کا
ہنوز اک پتو تش خیال یار باقی ہے
دل افسرده و یا جر ہ نے یوسف کے زنداں کا
بغل میں غیر کی تن آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سب کیا خواب میں آ کر تبسم بے پنہاں کا؟
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے سر شک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
نظر میں ہے ہماری جاده راه فنا ، غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزاے پریشاں کا
شب کہ برق سوز دل سے ز ہجر ابر آب تھا
شعلہ جوالہ ھر اک عایق گرداب تھا
واں کرم کو عذر بارش تھا عناں گیر خرام
گر نے سے یاں پنه باش کف سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
باں ہجوم اشک میں تار نکہ نایاب تھا
جلوه گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو،
یاں رواں مژگاں چشم تر سے خون تاب تھا
یاں سر پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرق از مو باش کمخواب تھا
یاں نفس کرتا تھا روشن ، شمع بزم بیخودی
جلو گل واں بساط تحت احباب تھا
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھامو بے رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوتن کا باب تھا
ناگہاں اس رنگ سے خوننابہ چکانے لگا
دل کہ ذوق کاوش ناخن سے لذت یاب تھا
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور ، کب تلک
ہم کہیں گے حال دل ، اور آپ فرمائیں گے کیا
حضرت نا مگر میں ، دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ مجھائیں گے کیا
آج واں تین و فن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
گر کیا اس نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
خانہ زاد زاف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
نہیں گرفتار وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
ہے اب اس معمورے میں قحط غم الفت اسید
ہم نے یہ مانا کہ دبئی میں رہیں ، کھائیں گے کیا؟
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل بینی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نواز شہاے بتا دیتا ہوں
شکایت باے میں کا گلا کیا
نگاو بے محابا چاہتا ہوں
تغافل باے ملیں آزما کیا
فروش شعلۂ خس یک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا
نفس مون محیط بیخودی ہے
تغافل باے ساقی کا گلا کیا
دماغ خطر پیرا ہن نہیں ہے
Iغم آوارگی باے صبا کیا
دل ہر قطرہ بے ساز انا ابحر
ہم اس کے ہیں ، ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے ، میں ضامن ادھر دیکھ
شہیدان نگہ کا خونبها کیا
سن اے غارت گر جنس وفا ، سن
شکست قیمت دل کی صدا کیا
کیا کسی نے جگر داری کا دعوی؟
شکیب خاطر عاشق بھلا کیا
به تقاتل وعده صبر آزما کیوں؟
یہ کافر تنه طاقت ربا کیا؟
بلاے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا ، اشارت کیا ، ادا کیا؟
گر نہ اندوه شب فرقت بیاں ہو جائے گا
بے تکلف ، داغ مہ مہر دیاں ہو جائے گا
زہرہ کر ایسا ہی شام ہجر میں ہوتا ہے آب
پر تو مہتاب سیل خانماں ہو جائے گا
لے تو لوں ، سوتے میں اس کے پانو کابوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا
دل کو ہم نعرف وفا مجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا
سب کے دل میں ہے جبکہ تیری، جوتو راضی ہوا
مجھ پر گویا ایک زمانہ مہربان ہو جائے گا
گر گاو گرم فرماتی رہی تعلیم ضبط
شعلہ اس میں جیسے خون رگ میں نہاں ہو جائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جاور میرے حال پر
ہرگل تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا
وائے گر میر ا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو بیتوقع ہے کہ وہاں ہو جائے گا
فائدہ کیا سوت ، آخر تو بھی دانا نے اسد
دو تا داں کی ب چی کا زیاں ہو جائے گا
درد منت کش دوا نہ ہوا |
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا |
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جا ئیں
۔ تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب، "کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا"
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی ؟ |
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
۔ حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زخم گر وب گیا، لہو نہ تھا |
کام کر رک گیا، روا نہ ہوا
دہزنی ہے کہ ول ستانی ہے؟
لے کے ول، " دلستاں" روانہ ہوا |
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں
واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک
تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شب غم ہے بلاؤں کا نزول
آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعت مژگان یار تھا
اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا
موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا
کس کا جنون دید تمنا شکار تھا
آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا
کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا
ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا
جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ
پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا
دیکھی وفاۓ فرصت رنج و نشاط دہر
خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا
صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا
اے وائے غفلت نگۂ شوق ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا
درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے
وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا
ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا
شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر
پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا
جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر
جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا
یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کو دستور سےرکھ کر محروم
بدقسمت ملک کو پہلےبقاوسلامتی سےدور کردیا جائے
پھر بےضابطہ ومن مانی آئینی اس میں ردوبدل کرکے
باقیات ملک کو بہ مطابق دستور چکناچور کردیا جائے
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ
مبارک باد اسدؔ غم خوار جان دردمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
سویدا تا بلب زنجیری دود سپند آیا
مہ اختر فشاں کی بہر استقبال آنکھوں سے
تماشا کشور آئینہ میں آئینہ بند آیا
تغافل بدگمانی بلکہ میری سخت جانی سے
نگاہ بے حجاب ناز کو بیم گزند آیا
فضائے خندۂ گل تنگ و ذوق عیش بے پردا
فراغت گاہ آغوش وداع دل پسند آیا
عدم ہے خیر خواہ جلوہ کو زندان بیتابی
خرام ناز برق خرمن سعی سپند آیا
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
انکار میں وہ لذت، اقرار میں کہاں ہے؟
بڑھتا ہے شوق "غالب" تیرے نہیں نہیں میں.
مدّت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پهر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
پهر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کئے ہوئے
پهر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدّت ہوئی ہے سیر چراغاں کئے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوۓ
پهر بهر رہا ہے خامہ مژگاں، بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازیِ دَاماں کئے ہوئے
باہم دِکر ہوئے ہیں دل و دیده پهر رقیب
نظّاره و خیال کا سَاماں کئے ہوئے
دِل پهر طوافِ کوۓ ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کده ویراں کئے ہوئے
پهر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوے
دوڑے ہے پهر ہر ایک گُل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نِگاه کا ساماں کئے ہوے
پهر چاہتا ہوں نامہ دلدار کهولنا
جاں نزرِ دل فریبی عنواں کئے ہوے
مانگے ہے پهر، کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوے
چاہے ہے پهر، کسی کو مقابل میں، آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کئے ہوے
اک نو بہارِ ناز کو تا کے ہے پهر نِگاہ
چہرہ فروغِ مے سے گُلستاں کئے ہوئے
پهر، جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منّتِ درباں کئے ہوئے
جی ڈهونڈتا ہے پهر وہی فرصت کے رات دن
بیٹهے ہیں تصّورِ جاناں کئے ہوئے
غالب! ہمیں نا چهیڑ کہ پهر جوشِ اشک سے
بیٹهے ہیں ہم تہیّہ طوفاں کئے ہوئے
مزہ ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا ؟
رکھے جو بیچ میں وہ شوخ سیم تن تکیہ
شب ِ فراق میں یہ حال ہے اذیت کا
کہ سانپ فرش ہے اور سانپ کا ہے من تکیہ
جوچلا گیا مجھے چھوڑ کہ
میں کبھی نہ اُسکو بھلا سکا
وہ دوریا وہ ہی فاصلے
میں کبھی نہ انکو مٹا سکا
کیا اُسے بھی مجھ سے پیار تھا
یا تبسم اُسکا شعور تھا
وہ کوئی عجیب سوال تھا
جو میری سمجھ میں نہ آسکا
میری زندگی کا سکون تھا وہ
میرے دل کا اِک جنون تھا وہ
میری بندگی میرا پیار تھا
یہی بات نا میں بتا سکا
یہی سوچتا تھا میں رات بھر
جو کبھی ملے گا وہ راہ پر
تو کروں گا اُس سے شکائتیں
وہ ملا تو لب نہ ہلا سکا
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
0 Comments